Wednesday, 22 April 2015

کوکا کولا کا تیس ڈالر سے 78 ارب ڈالر تک کا سفر

کوکا کولا، ایک ایسا خیال جِسے کوئی 30 ڈالر میں خریدنے کو تیار نہ تھا، آج 78 ارب ڈالر کی برانڈ ویلیو کے ساتھ دنیاکے ٹاپ برانڈز میں سرفہرست ہے۔ 30 ڈالر قیمت فروخت پر رد کیے جانے سے 78 ارب ڈالر برانڈ ویلیو تک کا یہ سفر دراصل اچھوتے خیالات اور آئیڈیاز کو عملی صورت دینے کی بنا پر ممکن ہوا۔ جان پمبرٹن امریکی ریاست اٹلانٹا میں ایک چھوٹے سے مکان کے عقبی حصے میں قائم لیبارٹری میں مختلف نوعیت کے تجر بات میں مگن رہتا اور اسے ان تجربات سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا ۔ 8 مئی 1886ء کو اس نے سردرد سے نجات اور دماغ کو تقویت پہنچانے والا ایک سیرپ تیار کیا۔ جس لمحے یہ سیرپ تیار ہوا تو جان پمبرٹن کو قطعاً اس بات کا احساس نہ تھا۔
3015878-poster-coca-cola-healthy-lifestyle
کہ اس کا یہ اچھوتا تجربہ ایک تاریخ رقم کرنے جارہا ہے ۔ یہ سیرپ بنا کر اس سے معاشی فوائد حاصل کرنا یا اس کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچادینا جان پمبرٹن کا مقصد نہ تھا بلکہ اس کا استعمال دوائی کے طور پر شروع ہوا ۔ مئی 1886ء کے بعد دوائی کے طور پر اس کا استعمال اور فروخت 9افراد روزانہ سے آگے نہ جاسکی۔ حتی کہ جان پمبرٹن کیلئے اس سیرپ کی فروخت بجائے معاشی فائدے کے نقصان کا باعث بنی کیونکہ اس کی تیاری پر سالانہ 70 ڈالر خرچہ جبکہ اس کی فروخت 50 ڈالر میں ہوتی تھی اور یوں جان پمبرٹن کو اپنے تیار کردہ سیرپ سے لوگوں کو مستفید کرنے کا 20 ڈالر سالانہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا امریکی عوام بھی اس سیرپ میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لے رہے تھے مگر یہ بات طے تھی اس سیرپ کو استعمال کرنے والے اس کے خاص ذائقے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اسی دوران ڈاکٹر پمبرٹن کے قریبی دوست فرینک راہنسن نے اس سیرپ کی کمرشل بنیادوں پر فروخت کا مشورہ دیا اور اسی نے اس کا نام کوکاکولا تجویز کیا اور یہاں تک کہ اس کا لوگو بھی تیار کردیا، ڈاکٹر پمبرٹن کاروباری ذہنیت نہیں رکھتا تھا پھر بھی اس نے اپنے سیرپ کی تھوڑی بہت تشہیری مہم چلائی مگر کچھ خاص نتیجہ برآمد نہ ہوا، ڈاکٹر پمبرٹن کی گرتی صحت بھی اسے کسی بڑی تشہیری مہم کی اجازت نہ دیتی تھی۔
large
اسی دوران ایک واقعہ ہوا جس نے کوکاکولا کو وہ عروج بخشا جو نہ صرف آج تک قائم ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ایک یہودی تاجرآساکینڈلر نے اخبار میں اشتہار دیا کہ اسے کاروبار کیلئے مختلف اور اچھوتے مشورے درکار ہیں اور جو کوئی ایسا مشورہ دے جو قابل عمل اور منافع بخش ہو، اسے ایک معقول معاوضہ دیا جائے گا۔ اس تاجر کو بہت سے آئیڈیاز دیے گئے مگر آساکینڈلر کو پسند نہ آئے، پھر ایک نوجوان جس کا نام چارلس کینڈلر تھا وہ اس یہودی تاجر کے پاس آیا اور دعویٰ کیا کہ اس کے پاس ایک ایسا اچھوتا آئیڈیا ہے جو کہ یہودی تاجر کو لازماً پسند آئے گا یہودی تاجر نے جب نوجوان کا اعتماد دیکھا تو اس کو مشورے سے قبل ہی انعام کی رقم ادا کر دی اور نوجوان نے اسے ایسے مشروب کی بوتلیں بنانے کا مشورہ دیا جن کا ذائقہ منفرد اور تاثیرطاقت بخش ہو۔ یہ ایسا مشورہ تھا جو اس یہودی تاجر کو ایسا پسند آیا کہ اس نے فوراً اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔ یہ نوجوان چارلس کینڈلر ،کوکاکولا بنانے والے ڈاکٹر جان پمبرٹن کا بیٹا تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر جان پمبرٹن کی گرتی صحت اور تشہیری مہم کے وسائل کا نہ ہونا، ڈاکٹر جان پمبرٹن کیلئے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے تھے۔ جب یہودی تاجر آساکینڈلر نے کوکاکولا کے شیئر خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تو ڈاکٹر جان پمبرٹن فوراً آمادہ ہو گیا اور شیئر آساکینڈلر کو فروخت کر دیئے۔ڈاکٹر پمبرٹن کی وفات کے بعد اس کے بیٹے چارلس کینڈلر نے کوکاکولا کے باقی شیئرز بھی آسا کینڈلر کو ہی فروخت کردیے۔ اب آساکینڈلر کوکاکولا کا بلاشرکت غیر مالک تھا اور اس نے اس کا فارمولا اپنے نام سے پیٹنٹ کروایا، مشروب تیار کرنے کی فیکٹری بنائی اور بوتلیں بنانے والی فیکٹری بھی بنا ڈالی۔ مشروب فروخت کرنے کیلئے تمام حربے استعمال کئے اخبارات میں اشتہاری مہم، کوپن سکیم اور سکیم کے تحت بوتلوں کی مفت فراہمی، یہ سب وہ طریقے تھے جنہوں نے کوکاکولا کی فروخت کو 1896ء میں 4000فیصد تک بڑھادیا۔ آساکینڈلر نے ڈاکٹر جان پمبرٹن کے سیرپ کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا اور اس کے بعد اس نے کوکاکولاکو کروڑوں ڈالر کے عوض ارنسٹ ووڈروف کے ہاتھوں فروخت کر دیا ۔ووڈروف نے کوکاکولا کی خریداری پر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگادی اور کوکاکولا کو اپنے بیٹے رابرٹ ووڈروف کے حوالے کر دیا،کوکاکولا کا انتظام رابرٹ ووڈروف کے ہاتھ آنا دراصل اس کو وہ عالمگیر شہرت اور وسعت کا ملنا تھا جس کا شائد کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو، رابرٹ ووڈروف معاشرے سے جڑا ہوا معاشرے کی نفسیات کو سمجھنے والا نوجوان تھا جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مختلف پروگرم منعقد کرانے کی وجہ سے انتہائی مشہور تھا، اس نے معاشرے کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوکاکولا کی سیل کو بڑھانے کیلئے ایسے اچھوتے آئیڈیاز پر کام کیا کہ کوکاکولا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ معاشرے میں پھیلتا چلا گیا اور اٹلانٹا سے اڑان بھر کے کرہ ارض کے سفر پر چل نکلا، رابڑٹ نے 1930ئمیں ریڈیو اور 1950ء میں ٹی وی کے ذریعے کوکاکولا کی اشتہاری مہم کا آغاز کیا۔ کوکاکولا کی مانگ بڑھی تو رابرٹ نے 6 بوتلوں کا فیملی پیک متعارف کروایا، کوالٹی کنٹرول کے شعبے پر خصوصی توجہ دی اور اپنی سیلز ٹیم کو اتنی شاندار معاشی ترغیبات دیں کہ ہر کوئی اس کوشش میں لگ گیا کہ بہترین سیل کا ایواڈ اسی کے حصے میں آئے،
coke2
سیلز سٹاف نے رابرٹ ووڈروف کو ’’باس‘‘ کہ کر پکارنا شروع کیا تو ہر شخص اسے باس پکارنے لگا۔رابرٹ نت نئے تجربے اور اچھوتے خیالات پر عمل کرنے والا شخص تھا۔ اس نے ایک مرتبہ کوکاکولا کا فارمولا تبدیل کر دیا جس کو لوگوں نے قبول نہ کیا، یہاں تک کہ کوکاکولا کی سیل ایک تہائی سے بھی کم ہو گئی، اس صورتحال سے رابرٹ بھی پریشان ہوا مگر ذہنی طور مظبوط ہونے کی وجہ سے اس صورتحال سے حواس باختہ نہ ہوا۔ اس نے مختلف سروے کرائے جن میں لوگوں نے پرانے فارمولے کیلئے زیادہ قیمت ادا کرنے پر بھی رضامندی کااظہارکیالہٰذارابرٹ نئے فارمولے کے ساتھ پرانے فارمولے کو دوبارہ مارکیٹ میں لے آیا کیونکہ پرانے فارمولے والی کوکاکولا کے مارکیٹ میں آتے ہی لوگ اس کو زائد قیمت پر خریدنے لگے، رابرٹ نے وقت کے ساتھ ساتھ نئے فارمولے کی سپلائی بالکل روک دی۔ 1970ئکی دہائی میں رابرٹ نے وہ فیصلہ کیا جس کی بنا پر کوکاکولا امریکی سرحدوں سے باہر نکل کر کرہ ارض پر پھیل گئی، رابرٹ نے امریکی حکام سے یہ ڈیل کی کہ وہ پوری دنیا میں جہاں جہاں امریکی فوج موجود ہے وہاں بغیر اضافی قیمت کوکاکولا فراہم کرے گا۔ معاہدہ طے پایا، شروع میں رابرٹ کو امریکی فوج کو کوکاکولا فراہم کرنے پر اضافی خرچ برداشت کرنا پڑا مگر یہ وہ تشہیر تھی جس نے کوکاکولا کو پوری دنیا میں متعارف کرایا۔ رابرٹ نے اپنا معاہدہ پورا کیا اور امریکی فوج کو 5 ارب سے زائد بوتلیں فراہم کیں، جہاں جہاں امریکی فوج گئی کوکاکولا بھی ان کے ساتھ ان خطوں میں سرائت کرتی گئی، آج زمین پر موجود آبادی کے 96 فیصد افراد کوکاکولا کا نام جانتے اور اس مشروب سے واقف ہیں،دنیامیں آج تک کوکاکولا اتنی تعداد میں پی جا چکی ہے کہ اگر ان بوتلوں کے کریٹ زمین پر رکھنے شروع کئے جائیں تو کرہ ارض کے ہر چپے پر اس کے 11 ہزار 870کریٹ آئیں گے ۔آج ہر سکینڈ میں دنیا بھر میں 7 ہزار سے زائد کوکاکولا پی جاتی ہیں اور اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کیلئے دنیا بھر میں کوکاکولا بنانے والے پلانٹ دن رات لگا تار مصروف عمل ہیں۔ہانگ کانگ میں کوکاکولا کا ایک 25 اور دوسرا 17 منزلہ پلانٹ موجود ہے، جارجیا کا یونیورسٹی ریسٹورنٹ ہر سال 30 لاکھ بوتل کوکاکولا فروخت کرنے کے ریکارڈ کا حامل ہے۔امریکہ میں کوکاکولا کی بھرائی کرنے والے پائپ کے پرزے الگ کیے جائیں اور ان کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھا جائے تو اس کی لمبائی 450 میل سے زائد بنتی ہے ، کوکاکولا کی اس کامیابی کے پیچھے اچھوتے آئیڈیاز اور منفرد سوچ رکھنے والے افراد کا ہاتھ ہے، ہر انسان کے زہن پر ہر روز ہزاروں آئیڈیاز دستک دیتے ہیں۔ان میں کچھ آئیڈیاز بہت ہی خاص ہوتے ہیں جن پر کان دھرنا اور عمل کرنا کسی بھی انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا سکتا ہے جس کا شائد اس نے تصور بھی نہ کیا ہو ۔ایک اچھوتے خیال کو بروقت عملی صورت دینے والے اس خیال کی برکت سے مستفید ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس آئیڈیا کو متعارف کرانے والے سے زیادہ وہ کاروباری حضرات فائدہ اٹھاتے ہیں جو دوسروں کے اچھوتے آئیڈیاز کی قدرومنزلت سمجھتے ہیں

Sunday, 12 April 2015

دنیا میں پہلے انڈہ آیا یا مرغی؟ سائنس دانوں نے بتا دیا


برمنگھم: دنیا میں پہلے مرغی آئی ہے یا انڈہ؟ اس حوالے سے اکثر بحث ہوتی ہے لیکن کبھی اس پراسرار سوال کا منطقی جواب نہیں ملا لیکن اب ایک محقق کرالوچ ریبرٹ نے اس کا سائنسی جواب دیدیا ہے۔
کرالوچ کے جواب کے نتیجے میں بھی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے دنیا میں مرغی کا وجود نہیں تھا البتہ اس وقت اس سے ملتا جلتا ایک پرندہ موجود تھا جسے پروٹو چکن کانام دیا گیا ہے۔ جب پروٹومرغی نے ایک انڈہ دیا تو یہ پہلے والے انڈوں سے ذرا مختلف تھا کیونکہ اس میں ایک جینیاتی تبدیلی ہو گئی تھی۔ اس انڈے سے جو چوزا نکلا وہ پروٹو چکن نہیں بلکہ آج کی مرغی کی نسل کا آغاز تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ پروٹو چکن کی نسل ختم ہو گئی اور صرف وہ مرغیاں باقی رہ گئیں جنھیں آج ہم جانتے اور پالتے ہیں لہذا اس تحقیق کے نتیجہ میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ آج کی مرغی اور انڈے میں سے پہلے دنیا میں آنے والی چیز انڈہ تھی لیکن اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ پروٹو چکن دنیا میں پہلے آیا یا اس کا انڈہ۔

Friday, 27 February 2015

Jo Mere Liye darwaza Khole Gi


شادی کی پہلی رات شوہر اور نئی نویلی دلہن نے ایک انوکھا فیصلہ کیا‘ دونوں کا فیصلہ تھا کہ صبح کوئی بھی آئے ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے شوہر کے والدین نے دروازے پر دستک دی ،دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور معاہدے کے مطابق کوئی بھی دروازہ کھولنے کے لئے نہیں اٹھا۔ چند منٹ دوسری دستک ہوئی‘ دروازہ کھولنے کی آواز آئی‘ اس مرتبہ ہونے والی دستک شوہر کی بہن کی تھی مگر شوہر نے اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اسے بھی نظر انداز کر دیا۔ دروازے پر تیسری دستک ہوئی‘ دروازہ نہ کھلا

Monday, 9 February 2015

Baaz ko thokar kha kar samajh

Baaz ko thokarr kha kar kahin samajh aati ha
Koi pathar to sar e raah parra rehne do

Jin k chehron par naqaab hote han

Jin k chehron par naqaab hote han
un k jurm be hisaab hote han
Akarr kar chalte han aise
jese husan k nawab hote han

Taseer hu ulti ha

Taseer hi ulti ha is jaam e mohabbat ki
Hum jisko pilaate han wo zehar ugalta ha

Mere yara tere ghum

Mere yara tere ghum agar payen ge
Hamen teri ha qasam hum mar jaenge

Yaadon se baaton tk

Meri baaton se meri yaadon tak,
hisaab kr k dekho, be hisab ho tum

Baahir se to ronak

Baahir se to ronaq aj bhi wohi ha
is ishq ne andar hi andar se jalaya ha bohat kuch

Chor kar hum ne ameeri

Chor kar hum ne ameeri, ki faqeeri ikhtiyaar
boriye pe beethe han , qaleen ko thoikar maar kar

Churri ki dhaar se

Churri ki dhaar se kat'ti nahi chiraagh ki loo
badan ki mout se insaan mar nahi skta

Dekh zindagi istarhan na rula mujh ko

Dekh zindagi istarhan na rula mujhko
Hum Khafa huwe to tujhe chor jaen ge

Dil juda hon to mulaqat ka

dil juda hon to mulaqaat ka kya matlab?
Youn to sehra sy samnadar bhi mila karte han

Kuch alfaaz ki tarteeb se

Kuch alfaaz ki tarteeb se banti ha shayri
Kuch chehre hi puri ghazal hua karte han

Zakham han k dikhtey nahi





 Zakham han k dikhte nahi
Mat samajhna k dukhte nahi














Sunday, 11 January 2015

Unwaan e Mohabbat

Unwaan e mohabbat pe bass itna hi likh paye hum

Bohat kamzor rishte thy bohat mazboot logo k

Mere sajdon

Mere sajdon k tasalsul ko tu kya jaane
Sar jhukaya teri khushi maangi haath uthaye to zindagi maangi

Nadan

Zamane ko dekh kar bhi na badal saka mein
Nadan , nadan hi raha. Ulta bhi likha seedha bhi

Be wajah bhool gaye

Be wajah bhool gaye hamen

Bepanah chahne waale