Saturday, 27 October 2018

Hath Khali Han Tere Shehar se Jaty Jaty by Rahit Indori

haath ḳhālī haiñ tire shahr se jaate jaate
jaan hotī to mirī jaan luTāte jaate
ab to har haath patthar hameñ pahchāntā hai
umr guzrī hai tire shahr meñ aate jaate
ab ke māyūs huā yāroñ ko ruḳhsat kar ke
rahe the to koī zaḳhm lagāte jaate
reñgne bhī ijāzat nahīñ ham ko varna
ham jidhar jaate na.e phuul khilāte jaate
maiñ to jalte hue sahrāoñ ik patthar thā
tum to dariyā the mirī pyaas bujhāte jaate
mujh ko rone salīqa bhī nahīñ hai shāyad
log hañste haiñ mujhe dekh ke aate jaate
ham se pahle bhī musāfir ka.ī guzre hoñge
kam se kam raah ke patthar to haTāte jaate

Thursday, 25 October 2018

Biography of Jaun Elia

جون ایلیا(14 دسمبر1931۔۔۔۔۔۔8 نومبر 2002)۔۔۔اصل نام سید جون اصغر تھا۔۔۔۔امروہہ میں پیدا ہوئے۔۔۔۔کراچی میں انتقال ہوا ۔۔۔زاہدہ حنا سے شادی ہوئی۔

حلقہ ذوق میں اپنے انوکھے اور بے باک انداز سے سراہے گئے۔
یہ سب باتیں آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں اسلیے تفصیل میں جانا مناسب نہیں۔ہم یہاں ایک اور پہلو پہ بات کرنا چاہتے ہیں۔

یہ جو نئی نسل ایلیائی بنی پھرتی ھے،کوئی جون کو حضرت لکھتا ھے تو کوئی مرشد۔۔کیا یہ واقعی جون کو سمجھتے ہیں۔۔؟

اسکا جواب نہیں میں ھے ، ہم نے پہلے ایک بار لکھا تھا کہ دکھ کا اظہار ایک تماشہ ھے اور بقول مشتاق احمد یوسفی یہ تماشہ جون اپنا خود بنواتے تھے۔بھری محفل میں رونا،بین کرنے،لوگ واہ واہ کے انداز میں تماش بینی کرتے تھے،

یہی تماش بینی نئی نسل کر رہی ھے۔ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں جون نے روتے ہوئے ایک شعر پڑھا تو سامعین ہنسنے لگے۔جون نے روتے ہوئے کہا ” کیا یہ ہنسنے کی بات ھے۔۔۔؟چلو میاں ہنسیے

اس شخص کے کرب کو کسی نے محسوس نہیں کیا بلکہ حظ اٹھایا کیونکہ ہم یہی کرنے کے عادی ہیں۔نئی نسل کو بھی پیالہ ناف، چھاتیوں جیسے الفاظ دیکھ کر حظ اٹھانے کا موقع ملا اور یہ ایلیائی بن گئے۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ ایسا کیوں ہوا۔۔؟
جون اور زاہدہ میں بہت ذہنی ہم آہنگی تھی جس کے بارے جون نے کہا ”کہ اگر دنیا میں زاہدہ اور میری محبت ناکام ہوسکتی ھے تو کس کی بھی ہوسکتی ھے۔۔

معاملہ یہ تھا کہ جون شروع سے رومان پسند طبیعت کے مالک تھے،بچپن میں ایک صوفیہ نام کے کردار سے انہیں محبت تھی،

مذہبی جنونیوں کے سخت خلاف تھے اور برملا اسکا اظہار کیا کرتے تھے لیکن جب انکے بھائی رئیس امروہی کا انہی مذہبی جنونیوں نے قتل کیا تو پھو جون نے اپنے خیالات کا اظہار محفلوں میں کرنا کم کردیا۔

جون کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ عملی زندگی سے نالاں تھے،یعنی کمانا،ذمہ داریاں اٹھانا۔انکی تباہی کی یہی بنیادی وجہ تھی۔زندگی نام ہی عمل کا ھے۔کیا فیض ، فراز یا ان کے عم عصروں نے نہیں کمایا؟۔۔۔

دوسرا ظلم ان کے ساتھ اس معاشرے نے کیا،یعنی انکا استعمال کیا،لوگ جون کو سننے کے لیے صبح تک بیٹھے رہتے تھے۔جون کا وہ کلام بھی چھپوایا گیا جو وہ نہیں چھپوانا چاہتے تھے اور پیسے بٹورے گئے۔

6 سال کی عمر سے شعر کہنے والے جون کا پہلا مجموعہ 60 سال کی عمر میں آیا کیونکہ وہ اپنا لکھا دنیا کو دیکھانا ہی نہیں چاہتے تھے۔جون کی یہ بولڈ شاعری اور تحریرات در اصل انکی ڈائری کی مانند تھیں،

ہم میں سے کون ہے جسے جسم کی طلب نہیں۔۔؟ہم اپنے دوستوں کے ساتھ محفلوں میں اس طلب کا اظہار کرتے ہیں جون نے یہ اظہار ڈائری کی شکل میں لکھ کر کیا۔۔جون کی بدقسمتی کہ انکے کرب کو سمجھنے کی بجائے لوگ اس کلام سے حظ اٹھانے لگے۔

ہمارے نزدیک جون کا یہ بے باک کلام اس ملک میں چھپنا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ یہ قوم سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ھے۔

جون کے ساتھ وہی ہوا جو ساغر صدیقی کے ساتھ ہوا۔ہاں اس وقت میڈیا نہیں تھا ، جون کے زمانے میں میڈیا تھا تو جون اپنے دکھوں کا اظہار کر کے تماشہ بن گئے۔کثرت شراب نوشی اور نا امیدی نے انہیں سسک سسک کر مرنے کے مقام پہ لا کھڑا کیا۔

ہمارے نزدیک ساغر ان سے بڑے شاعر ہیں جنہیں لوگ ہیروئن دے کر کلام لکھواتے تھے اور اپنے نام سے چھپوا دیتے تھے۔۔

ہاں ہم یہاں ایک شخص کا تذکرہ ضرور کرنا چاہیں گے جس نے حقیقی معنوں میں نہ صرف جون کا ساتھ دیا بلکہ انہیں عملی زندگی کی طرف لانے میں بھی کوشاں رھے،یہ صاحب عبیداللہ علیم کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کے بارے خود جون کے الفاظ سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہمیں اس نئی نسل کے رویے پر کوئی حیرانی نہیں ھے کیونکہ جب اس شخص کی بیٹی ہی اسے نہ سمجھے تو دوسرے لوگوں سے کیا گلہ۔۔ہم نے جون کی بیٹی کو ایک انٹرویو میں جون کی زندگی اور شاعری پر بات کرتے دیکھا۔ہم نے یہ سوچتے ہوئے موصوفہ کی ویڈیو چلنے دی کہ کچھ نیا جاننے کو ملے گا لیکن انکو یہ فرماتے سنا کہ جون ایک ایتھسٹ(ملحد) تھے اور علما کے ان پر فتوے ہیں۔۔

کاش اس بی بی کے سامنے ہم ہوتے تو ان سے پوچھتے کہ کیا ملحد بار بار محفلوں میں حسین کی قسم ، حسین کے خون کی قسم ، کربلا کی قسم جیسی قسمیں اٹھاتے ہیں۔۔

محترمہ نے جون کا یہ مصرعہ بھی پڑھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”کوئی رہتا ھے آسماں میں کیا“۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خدانے پیدا کیا ھےتو شکوے شکایتیں بھی اسی سے کرینگے اور کفر کے فتوے تو ہر شخص پر موجود ہیں۔بس انکی عقل پہ ماتم کے سوا ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔

ہم اس نئی نسل کو ایلیائی تب مانیں جب یہ ارد گرد کئی لوگوں کو جون نہ بننے دیں ، ہم انہیں تب تماش بین نہ کہیں جب یہ کافر کافر کا کھیل کھیلنے والے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف زبان کھولیں۔

اگر یہ پیالہ ناف پر ہی واہ واہ کرکے ایلیائی ہونے کے دعویدار ہیں تو یہ ایلیائی نہیں صرف تماش بین ہیں،صرف تماش بین۔

History of Jaun Elia
Biography of Jaun Elia
Detail about Jaun Elia
Who is Jaun Elia

Umar Guzray Gi Imtehan Main Kya?

عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

مری ہر بات بے اثر ہی رہی
نَقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

خود کو دنیا سے مختلف جانا
آگیا تھا مرے گمان میں کیا

ہے نسیمِ بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

(جون ایلیا)💜

Kitnay Aish Laraty Hongy, Kitnay Itraty Honge

کِتنے عیش اُڑاتے ہونگے، کِتنے اِتراتے ہونگے
جانے کیسے لوگ وہ ہونگے، جو اُسکو بھاتے ہونگے
۔
اُسکی یاد کی بادِ صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یُوں ہی میرے بال ہیں بِکھرے، اور بِکھر جاتے ہونگے
۔
وہ جو نہ آنے والا ہے نا!! اُس سے ہم کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب، آتے ہیں آتے ہونگے
۔
یارو!! کچھ تو حال سُناؤ، اُسکی قیامت بانہوں کا
وہ جو سِمٹتے ہونگے اُن میں، وہ تو مر جاتے ہونگے
۔
- جون ایلیاء

Wednesday, 24 October 2018

Main Chaar Jamatan Ki Parriyan by Warish Shah

وارث شاہ کے کلام سے..

میں چار جماعتاں کی پڑھیاں؟
میں فتوے لاواں ہر اک تے،
کدی بے عملاں تے،
کدی بے عقلاں تے،
کدی شاعری تے، کدی گاؤن تے،
کدی ہسن تے کدی روون تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے،

میں آپ مسیتی جاواں ناں!
جئے جاواں مَن ٹکاواں ناں
میں فتوے لاواں اوتھے وی
کدی وضو تے کدی نماز اتے
کدی اُچی نیویں آواز اتے
کدی مَنن یا نہ مَنن تے
ہتھ اُتے تھلے بنھن تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے!

کدی کافر آکھاں مولویاں نوں
میں فتوے لاواں ساریاں تے، 
کدی ٹوپی تے کدی داڑھی تے
گل چنگی یا گل ماڑی تے
کدی شہیداں تے کدی مریاں تے
کدی مناؤندے جمن ورھیاں تے
کدی جنگاں تے کدی جہاد اتے
میں فتوے لاواں ہر اک تے

کدی رسم آکھاں دین نوں
کدی دین آکھاں رسماں نوں
میں رَبّ، قرآن نوں من لیا
پر منیا چُکن قسماں نوں
کدی عیداں تے شبراتاں تے
کدی جاگن والیاں راتاں تے
کدی زیراں تے کدی زبران تے
کدی مزاراں تے کدی قبراں تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے

میں سُنی،وہابی،حنفی ہویا، 
ہویا شافعی،مالکی، تےحنبلی 
میں سب کجھ ہویا... 
# پرہویانہ_مسلماں
میں چار کتاباں جوِپڑھیاں
اپنے علم دیاں لاواں تڑیاں

ویلا میرے علم دا ٹھوٹھا جے
ہر فتوٰی میرا جھوٹھا جے
میں آپ تاں فرض نبھاواں نہ
دین دے نیڑے جاواں نہ!
پر کافر آکھاں ہر اک نوں!
*میں فتوے لاواں ہر اک نوں!

Mohabbat Ki Shaadiyan

محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔
آپ ہماری جینے مرنے کی قسمیں کھانے والی نسل کی سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 50000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 30000 ” لو میرجز ” تھیں ۔
آپ حیران ہونگے صرف گجرانوالہ شہر میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ۔
آپ کراچی کی مثال لے لیں جہاں 2010 میں طلاق کے40410کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ۔ 2015 میں صرف خلع کے 13433 سے زیادہ کیسسز نمٹائے گئے ۔

گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں ۔

سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے ۔

پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔شوہر شام میں گھر آتا ، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں ۔
لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔ 
یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا ۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔
مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا ۔ 
لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ۔
بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں ۔ 
زندگی میں معافی کو عادت بنالیں ۔ 
خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ۔ساری دنیا کو دکھانے کے لئیے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئیے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” ایسا نہ کریں ۔ 
جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں ۔

یاد رکھیں

مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے ۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگے تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ۔

ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے جو کہ ایک مثالی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔
: آج عورت گوشت کی دکان لگتی ھے اور باھر کتے انتظار مین کھڑے ھین کہ۔۔۔۔
۔
آج عورت کے پھٹے کپڑے سے اسکی غربت کا احساس نہین ھوتا بلکہ جسم دیکھنے کی سوچ ھوتی ھے۔۔۔
۔ 
​اِسلام نے عَورت کو عِزَّت دِی ہے یا آج کے جَدِید و تَرَقِّى يافتہ مُعاشرے نے؟ آج اگر ایک پاؤ گوشت لیں تو شاپِنگ بیگ میں بَند کر کے لے جاتے ہیں، اور پَچاس کِلو کی عَورت بغیر پَردے کے بازاروں میں گُهومتی ہے. کیا یہی ہے آج كا جَدِيد مُعاشره کہ کهانا تو پاکِیزه ہو اور پَکانے والی چاہےجیسی بِهی ہو؟​

​جَدِيد مُعاشرے كا عَجِيب فَلسَفہ:​
​لوگ اپنی گاڑیوں کو تو ڈھانپ کر رکهتے ہیں تاکہ اُنہیں دُهول مِٹِّی سے بَچا سکیں، مگر اپنی عَورتوں کو بے پَرده گُهومنے دیتے ہیں چاہے اُن پر کِتنی ہِی گَندی نَظریں کِیوں نہ پَڑیں؟​

​دَورِ جَدِید کی جاہِلیَّت:​
​عَورت کی تَصاوِیر اِستِعمال کر کے چَهوٹى بڑی تمام کمپنِیاں اپنی تِجارت کو فَروغ دیتی ہیں، یہاں تک کہ شَيوِنگ كَرِيم میں بِهی اِس کی تَصاوِير ہوتی ہیں. فَرانس و اَمرِیکہ میں جِسم فَروشی کا شُمار نَفع بَخش تِجارت کے زُمرے میں آتا ہے. اُن لوگوں نے اِسلامی مُمالِک میں بِهی ڈَورے ڈال لِئے ہيں. مُسَلمان عَورت کو بِهی جَہَنَّم کی طرف لے جا رہے ہیں. چُنانچہ مُسَلمان عَورت تَہذِیبِ جَدِید کے نام پر بے پَردہ پِهرنے لگی ہے.​

​ماسٹر پَلان كے ذريعے نئى نَسل کو تَباه کِیا جا رہا ہے:​

​غَور کِیجِئے!​
​ہر اِشتِہار میں لڑکا لڑکی کے عِشق کی کہانی مِلے گی.​

​ذرا سوچِیئے!​
​- سَیون اَپ کے اِشتِہار میں مَحَبَّت کا کیا کام؟​
​- تَرَنگ چائے کے اِشتِہار میں گَلے لگنے اور ناچنے کا کیا کام؟​
​- موبائِل کے اِشتِہار میں لڑکے لڑکِیوں کی مَحَبَّت کا کیا کام؟​

​دیکِهيئے!​
​آج کوئی نوجوان اِس فحاشی سے بَچ نہیں پایا. سِکهایا جا رہا ہے کہ آپ بِهی شیطان کی پَیروی کریں، فحاشی کریں، مَوج کریں.​

​آج عَورت خُود اِتنی بے حِس ہو چُکی ہے کہ جو بِهی پَردے کی بات کرے اُس کے خِلاف سَڑکوں پر نِکل آتی ہے. جبكہ ایک ایک روپے کی ٹافِیوں، جُوتوں، حَتّٰى كہ مَردوں كى شَيو كرنے كے سامان تک کے ساتھ بِکنے پر کوئی اِحتِجاج نہیں کرتی، بلکہ اِسے رَوشَن خیالِی کی عَلامَت سمجهتی ہے.​

​لمحۂ شَرمِندگى:​
​آج ہر بِکنے والی چِیز کے ساتھ عَورت کی حَیاء اور مَرد کی غَیرت بِهی بِک رہی ہے.​

​نام نِہاد پَرده… صِرف فَيشن كيلِئے:​
​فِی زَمانہ بُرقَعہ اِتنا دِلكَش و دِلفَريب ہے کہ اُس کے اُوپر ايک اور بُرقَعہ اَوڑهنے کى ضُرُورت ہے.​

​”پَرده نَظَر کا ہوتا ہے.“​
​اِسی سوچ نے آدِهی قَوم کو بے پَرده کر دِیا ہے.​

​مَرد آنکهیں نِیچِی نہیں کرنا چاہتا، عَورت پَرده كرنے کو جہالت سمجهتی ہے… مگر دونوں کو مُعاشرے ميں عِزَّت و اِحتِرام کی تلاش ہے.​

​بے پَرده نَظَر آئِيں كَل جو چَند بِيبِياں…​
​اَكبؔر زَمِيں ميں غَيرَتِ قَومِى سے گَڑھ گيا.​

​پُوچها جو اُن سے آپ كا پَرده وه كيا ہُوا…؟​
​كہنے لگِيں كہ عَقل پَہ مَردوں كى پَڑ گيا.​

​(اَكبؔر اِلہٰ آبَادِى)​

​پَرده عَورت کے چہرے پر ہوتا ہے، اگر چہرے پر نہیں تو سمجھ لِیجِئے کہ عَقل پَہ پَڑا ہُوا ہے.​

​اگر جِسم کی نُمائِش کرنا ماڈَرن و تَرَقِّی یافتہ ہونے کی عَلامَت ہے تو پِهر جانور اِنسَانوں سے بہت زیاده ماڈَرن و تَرَقِّی یافتہ ہیں.​

​پہلے شَرم کی وجہ سے پَرده کِیا جاتا تها اور اَب پَرده کرتے ہُوئے شَرم آتی ہے.​
۔پڑھ کر اگنور کرنا ہے یا واہ واہ کرنا ہے عمل کرو گے تو لوگ کیا کہیں گے...

اگر آپ اس سے متفق ھیں تو  اس تحریر کو ضرور شیئر کریں

Karna Aen Thaggi Nazar Na Laggi by Tajmeel Kaleem

کرنائیں ٹھگی نظر نہ لگی
ہر شے لگی نظر نہ لگی

صدقے جاواں دل دا بُوٹا
جانائیں کھگی نظر نہ لگی

مرزیا تیرا مکھ سندوری
گھوڑی بگی نظر نہ لگی

تونہہ پرکٹ ایں رانجھن یارا
ہیر اے ڈھگی نظر نہ لگی

اکھ لگن توں لے کے اج تک
اکھ نئیں لگی نظر نہ لگی

یارکلیما ہے تیری وی
سوچ سُلگی نظر نہ لگی

تجمل کلیم

Aap Ki Jameela (Great Love Story)

آپ کی جمیلہ
-------------
وہ دونوں کلاس فیلو تھے‘ لڑکی پوری یونیورسٹی میں خوبصورت تھی اور لڑکا تمام لڑکوں میں وجیہہ‘ دونوں ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے اور آخر میں دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے‘ معاملہ رومیو جولیٹ جیسا تھا‘ دونوں کے خاندان ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے‘ شادی مشکل تھی‘ دونوں باعزت گھرانوں کے سعادت مند بچے تھے‘ یہ بھاگ کر شادی کیلئے تیار نہیں تھے اور خاندان اپنے اپنے شملے نیچے
نہیں لا رہے تھے لہٰذا معاملہ پھنس گیا‘ لڑکے اور لڑکی نے پوری زندگی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ دونوں اپنے اپنے گھر میں رہتے رہے‘ پانچ سال دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ ہوا‘ والدین شادی کی کوشش کرتے مگر یہ انکار کرتے رہے یہاں تک کہ لڑکی کے والدین ہار مان گئے‘ لڑکی نے لڑکے کو فون کیا‘ لڑکے نے فون اٹھایا‘ لڑکی کی صرف ہیلو سنی اور کہا ”مجھے بتاؤ‘ میں نے بارات لے کر کب آنا ہے“ دونوں کے والدین ملے‘ شادی ہوئی اور دونوں نے اپنا گھر آباد کر لیا‘ لڑکے نے کاروبار شروع کیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور وہ خوش حال ہو گئے‘ یہ شادی بیس سال چلی‘ اس دوران تین بچے ہو گئے‘ خاتون کو اپنے حسن‘ اپنی خوبصورتی پر بہت ناز تھا‘ وہ تھی بھی ناز کے قابل‘ وہ 45 سال اور تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود جوان لگتی تھی‘ خاوند بھی روز اول کی طرح اس پر فریفتہ تھا‘ وہ روز جی بھر کر بیوی کی تعریف کرتا تھا لیکن پھر ایک دن وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا‘ خاتون کی گردن پر چھوٹی سی گلٹی نکلی اور یہ گلٹی پھیلتے پھیلتے ناسور بن گئی‘ ڈاکٹروں کو دکھایا‘ ٹیسٹ ہوئے‘ پتہ چلا خاتون جلد کے کینسر میں مبتلا ہیں‘ خاوند صرف خاوند نہیں تھا وہ اپنی بیوی کا مہینوال تھا‘ وہ اپنی ران چیر کر بیوی کو کباب بنا کر کھلا سکتا تھا‘ وہ بیوی کو لے کر دنیا جہاں کے ڈاکٹروں کے پاس گیا‘ ایک کلینک سے دوسرے کلینک‘ ایک ڈاکٹر سے
دوسرے ڈاکٹر اور ایک ملک سے دوسرے ملک‘ وہ دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا‘ خاتون کا جسم گلٹیوں سے بھر گیا‘ یہ مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک دن دوسری آفت آن پڑی‘ خاوند کی گاڑی ٹرک سے ٹکرائی اور وہ شدید زخمی ہو گیا‘ وہ ہسپتال پہنچا‘ پتہ چلا وہ بینائی کی
نعمت سے محروم ہو چکا ہے‘ آپ اس کے بعد المیہ ملاحظہ کیجئے‘ شہر کا خوبصورت ترین جوڑا‘ بدقسمتی‘ بیوی جلد کے کینسر کی مریض اور خاوند آنکھوں سے اندھا‘
لوگ انہیں دیکھتے تھے تو کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے لیکن یہ دونوں اس کے باوجود مطمئن تھے‘ یہ روز صبح باغ میں واک بھی کرتے تھے‘ سینما بھی جاتے تھے اور ریستورانوں میں کھانا بھی کھاتے تھے‘ بیوی خاوند کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتی تھی‘ وہ اسے گائیڈ کرتی تھی اور خاوند بیوی کی گائیڈینس پر چلتا جاتا تھا‘ یہ سلسلہ بھی کئی ماہ تک چلتا رہالیکن پھر بیوی نے خاوند سے ایک عجیب مطالبہ کر دیا‘ وہ اکیلی سوئٹزرلینڈ جانا چاہتی تھی‘ خاوند نے وجہ پوچھی‘ بیوی کا کہنا تھا وہ دس پندرہ دن اکیلی رہنا چاہتی ہے‘
خاوند نے اس کے ساتھ جانے کی ضد کی لیکن وہ نہ مانی‘ اصرار اور انکار بڑھتا رہا یہاں تک کہ آخر میں وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے‘ خاوند نے بیوی کو اجازت دے دی۔بیوی سوئٹزر لینڈ چلی گئی‘ خاوند نے وہ دس دن بڑی مشکل سے گزارے‘ وہ شادی کے 20 برسوں میں ایک دن کیلئے بھی اکیلے نہیں ہوئے تھے‘ یہ ان کی جدائی کے پہلے دس دن تھے‘ یہ دس دن پہاڑ تھے‘ خاوند اس پہاڑ تلے سسکتا رہا‘ دس دن بعد بیوی نے آنا تھا‘ خاوند ائیرپورٹ پہنچا لیکن بیوی نہ آئی‘
خاوند کو دنیا ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی‘ وہ سارا دن بیوی کو فون کرتا رہا‘ بیوی سے رابطہ نہ ہوا لیکن شام کو بیوی کا خط آ گیا‘ وہ خط ان کے بیٹے نے پڑھا‘ وہ خط صرف خط نہیں تھا‘ وہ ایک تحریری قیامت تھی اور پورا خاندان اس تحریری قیامت کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اس قیامت کی طرف آنے سے قبل آپ کو دنیا کی ایک خوفناک لیکن دلچسپ حقیقت بتاتا چلوں۔دنیا میں ایسے بے شمار سینٹرز ہیں جہاں آپ اپنی مرضی سے مر سکتے ہیں‘ یہ سینٹرزلاعلاج مریضوں کیلئے بنائے گئے ہیں‘
دنیا میں یہ لوگ جب امراض کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک جاتے ہیں اور یہ چین کی موت مرنا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان سینٹرز میں جاتے ہیں‘ اپنی میڈیکل رپورٹس دکھاتے ہیں‘ ڈاکٹرز ان کی حالت اور رپورٹ چیک کرتے ہیں‘ ان سے یہ حلف نامہ لیتے ہیں ”ہم اپنی مرضی سے دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں“ ان کی مرضی سے ان کی موت کا دن اور وقت طے کرتے ہیں‘ ان کی آخری خواہش پوری کرتے ہیں اور پھر انہیں زہر کا ٹیکہ لگا کر دنیا سے رخصت کر دیتے ہیں‘ یہ عمل طبی زبان میں یوتھانیزیا(euthanasia)یعنی آسان موت کہلاتا ہے‘یہ دنیا کے 7 ممالک میں قانونی ہے اور اتنے ہی ملکوں میں اس کی اجازت کیلئے بحث چل رہی ہے‘
سوئٹزر لینڈ بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں یوتھانیزیا کو قانونی سٹیٹس حاصل ہے‘ زیورخ شہرمیں یوتھانیزیا کا سینٹر بنا ہے‘ یہ سینٹر انتہائی خوبصورت جگہ پر قائم ہے‘ سینٹر کے کمرے پہاڑوں‘ آب شاروں اور جھیلوں کے کنارے بنائے گئے ہیں‘ مریض بیڈ پر لیٹ کر زندگی کی آخری صبحیں اور شامیں دیکھتے ہیں اور آخر میں مہربان ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہاتھوں میں زندگی کی سرحد پار کر جاتے ہیں‘ وہ خاتون بھی یوتھانیزیاکیلئے سوئٹزر لینڈ گئی تھی‘ وہ کینسر کا دکھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی چنانچہ اس نے آسان موت لینے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ زیورخ گئی‘
زندگی کے آخری دس دن گزارے اور عین اس وقت اپنے لئے موت کا تعین کر لیا جب اس کی فلائیٹ نے وطن کی مٹی کو چھونا تھا‘ ادھر فلائیٹ اتری اور ادھر وہ زندگی کی سرحد پار کر گئی‘ خاتون کا آخری خط بیٹے کے ہاتھ میں تھا‘ وہ سسکیاں لے لے کر خط پڑھ رہا تھا اور خاوند سر جھکا کر اپنی بیگم کا ایک ایک لفظ سن رہاتھا۔بیوی نے اپنی پوری زندگی کا احاطہ کیا‘ اس نے بتایا‘ وہ جب پہلی بار یونیورسٹی میں ملے تھے تو اس نے کیا محسوس کیا تھا‘ وہ یونیورسٹی میں لڑتی کیوں تھی اور وہ کون سا دن تھا جب لڑتے لڑتے اسے اس سے محبت ہو گئی تھی‘ اس نے فراق کے وہ پانچ سال کیسے گزارے تھے اور اس نے شادی کے بعد اپنے بچوں کو ملازموں کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑے رکھا تھا ”میں اپنی محبت کو تقسیم نہیں کر سکتی تھی‘ میں تمہارا حصہ اپنے بچوں کو بھی نہیں دے سکتی تھی“
اس نے 20 سال کی ازدواجی زندگی کس مسرت اور سرشاری میں گزاری اور پھر جب اسے پہلی گلٹی نکلی تو اس نے کیا محسوس کیا‘ وہ خود کو روز بروز بدصورت ہوتا ہوا دیکھتی تھی تو اس کے دل پر کیا گزرتی تھی‘ وہ قدرت کا یہ فیصلہ بھی سہتی چلی گئی لیکن پھر عجیب واقعہ ہوا”آپ نے پہلے بچے بورڈنگ سکول میں بھیج دیئے‘ میں جانتی تھی آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا‘ آپ نہیں چاہتے تھے میرے بچے مجھے اس حالت میں دیکھیں اور پھر میں ان کی آنکھوں میں اپنے لئے ترس دیکھوں‘
پھر آپ ملازموں کو رشوت دیتے تھے اور وہ روزانہ کوئی نہ کوئی شیشہ توڑ دیتے تھے‘ میں آپ سے شیشے لگوانے کا کہتی تھی‘ آپ ہنس کر ٹال جاتے تھے یوں آہستہ آہستہ گھر سے سارے آئینے غائب ہو گئے‘ آپ نہیں چاہتے تھے میں اپنی آنکھوں سے اپنی بدصورتی دیکھوں‘ بات اگر یہاں تک رہتی توبھی میں برداشت کر جاتی لیکن آپ نے آخر میں عجیب کام کیا‘ آپ نے ایکسیڈنٹ کیا اور خود کو اندھا ڈکلیئر کر دیا‘ میں جانتی ہوں آپ کی آنکھیں ٹھیک ہیں‘ آپ مسلسل چھ ماہ سے اندھے پن کی ایکٹنگ کر رہے ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نہیں چاہتے تھے
میرے دل میں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال آئے میں آپ کو بدصورت دکھائی دے رہی ہوں یا میں آپ کی آنکھوں میں اپنی بدصورتی کو پڑھ لوں چنانچہ آپ اندھے بن گئے‘ آپ کا یہ مصنوعی اندھا پن محبت کی انتہا تھی‘ میں یہ انتہا برداشت نہ کر سکی چنانچہ میں نے دنیا سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ میں دنیا سے جا رہی ہوں‘ آپ اب پلیز اندھے پن کی یہ ایکٹنگ بند کر دیں‘ یہ خط پکڑیں اور خود پڑھنا شروع کر دیں“ یہاں پہنچ کر بیٹے کے منہ سے چیخ نکل گئی‘
باپ نے اس کے ہاتھ سے خط لیا اور اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا ”آپ پلیز میرے بعد اپنا خیال رکھئے گا‘ سارے تولئے الماری میں رکھے ہیں‘ میں درزی کو پانچ سال کے کپڑے دے آئی ہوں‘ وہ سال میں دس جوڑے سی کر دے جائے گا‘ آپ نے وہ سارے کپڑے پھٹنے گھسنے تک پہننے ہیں‘ دانت چیک کراتے رہا کریں اور صبح کی سیر کبھی نہیں بھولنی اور آخری بات چڑیوں کو روز دانا ڈالنا ہے اور میری بلیوں کا ہمیشہ خیال رکھنا ہے‘ اللہ حافظ۔ آپ کی جمیلہ“۔خاوند نے خط تہہ کر کے جیب میں رکھا اور چڑیوں کے دانے کا ڈبہ تلاش کرنے لگا۔

Ab To Ik Khaab Huwa Azan e Bayan Ka Mausam

اب تو اک خواب ہوا اذنِ بیاں کا موسم
جانے کب جائے گا، یہ شورِ اذاں کاموسم

حاکم وقت ہوا، حاکمِ فطرت شاید
ان دنوں شہر میں، نافذ ہے خزاں کا موسم

حکمِ قاضی ہے کہ ماضی میں رکھا جائے ہمیں
موسمِ رفتہ رہے عمر رواں کا موسم

نمِ بادہ کا نہیں نام و نشاں اور یہاں
ہے شرر بار فقیہوں کی زباں کا موسم

کعبۂ دل پہ ہے پیرانِ حرم کی یلغار
ہائے اے پیر مغاں! تیری اماں کا موسم

بند ہیں دید کے در، وا نہیں امید کے دَر
ہے یہ دل شہر میں، خوابوں کے زیاں کا موسم

اک نہیں ہے کہ ترے لب سے سنی جاتی ہے
جانے کب آئے گا ظالم تری ہاں کا موسم

وا نہ کر بند قبا، یاں کی ہوا میں اپنے
بتِ سرمست! مسلمان ہے یاں کا موسم

رنگ سرشار نہ ہوجائے فضا تو کہنا
آئے تو مستی خونیں نفساں کا موسم

جون ایلیا