Tuesday, 20 March 2018

Adaten Naslon ka Pta Deti han

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔

ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔
(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا
جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.
چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"
بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،
اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟
اس نے کہا،
جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،
مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،
چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی،
چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"
اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.
کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،"
"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان،
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"
تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،
"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں ۔

Friday, 9 March 2018

Mede Pyaar Dy Vich Koi Mashkok

Mede Pyaar Dy Vich Koi Mashkok Na C
Nai aj tak galt nigah keti

Teri har mulaqaat inj keti
jeven Musa naal Khuda keti

Na farq keta teri puja da
Na Kahtryan di parwaah keti

Bus tenu ik RABB na keh  skya
Baaki har ik Rasm Ada keti

Tuesday, 6 March 2018

Maqrooz k bigre huwe hallaat ki manind

_🎸شاعری ایک احساس🎸_

مقروض کے بگڑے ہوۓ حالات کے مانند
مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کی مانند

دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے
سیلاب  سے  برباد  مکانات  کی  مانند

میں ان میں بھٹکتے ہوۓ جگنو کی طرح ہوں
اس شخص کی آنکھیں ہیں کس رات کی مانند

دل روز سجاتا ہوں دلہن کی طرح سے
غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند

اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا
جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی  مانند

کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش
معصوم سے بچے کی خیالات کی مانند

محسن اسے ملنا میرا ممکن ہی نہیں ہے
میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند.

Na samato men tapish ghule na nazar ko waqf e azaab kr

​_🎸شاعری ایک احساس🎸_

نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر​
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر​

ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!​
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر​

مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟​
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر​

کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں​
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تر کو چناب کر​

یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،​
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر​

یہ جُلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے​
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر​

                         

Suna hai log usay aankh bhar k dekhtay han

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

رکے، تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌

Wo misl e ayena deewar pe rkha hua tha

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا

میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا

وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا

خط تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا

فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا

وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا

ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

جمال احسانی

Kya tha jo ghari barh ko.tum laout k aa jaaty

کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آ جاتے
بیمارِ محبّت کو صورت تو دِکھا جاتے

اتنا تو کرم کرتے دُکھ درد مجھے دے کر
اک بار میرے آنسو دامن سے سُکھا جاتے

پھر درد ِ جدائی کو محسوس نہ میں کرتا
اچھا تھا اگر مجھ کو دیوانہ بنا جاتے

مجھ پر غم فرقت کی تہمت نہ کبھی لگتی
آنکھوں میں کبھی اپنی تصویر بسا جاتے

پھر اُن سے فنا مجھ کو رہتا نہ گلہ کوئی
درماں نہ میرا کرتے دیدار کرا جاتے...فيضان

Saturday, 3 March 2018

Mere jaan o dil mere hum safar men udaas hun koi baat kar

‏میرے جان و دل___ میرے ہمسفر
میں اداس ہوں کوئی بات کر.,,!!

تیرے لب ہلیں_____ تو کٹے سفر.
میں اداس ہوں کوئی بات کر,,!!

کوئی بوجھ ہو تو_____ اتار دے
کوئی خوف ہو تو____ نکال دے,,!!

میرا ہاتھ ہے_______تیرے ہاتھ پر
میں اداس ہوں کوئی بات کر ,,!!

Gulaab Ankhen, Sharab Aankhen yehi to han Lajavaab ankhen

گلاب آنکھیں، شراب آنکھیں
یہی تو ہيں لا جواب آنکھیں

انھی میں الفت،انھی میں نفرت
ثواب آنکھیں، عذاب آنکھیں

کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں

کبھی چھپاتی ہيں راز دل کے
کبھی ہيں دل کی کتاب آنکھیں

کسی نے دیکھی تو جھیل جیسی
کسی نے پائى سراب آنکھیں ..

وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں، جناب آنکھیں

عجیب تھا گفتگو کا عالم
سوال کوئى،جواب آنکھیں

یہ مست مست بے مثال آنکھیں
مصوری کا ..........کمال آنکھیں

شراب رب نے حرام کر دی
مگرکیوں ہیں حلال آنکھیں ..

ہزاروں ان پر قتل ہوں گے
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں

Youn hi rehne lagi hai wehshat c

یوں ہی رہنے لگی ہے وحشت سی
کوئی آفت نہیں محبت سی

دل پہ گزرے نہ کچھ قیامت سی
اُن کو سوجھی ہے پھر شرارت سی

آج برسوں کے بعد سمجھا ہوں
درمیاں کیا تھی وہ رفاقت سی

رفتہ رفتہ نہ جانے کب اے دوست
پڑ گئی مجھ کو تیری عادت سی

کیوں تھی ماھی اُسے جھجک اتنی
اُس کے لب پر تھی کیا شکایت سی

Shoq k bakht men.Sabaat kahan

شوق کے بخت میں ثبات کہاں
لے چلی گردشِ حیات کہاں

خشک سالی کہاں محبت کی
آپ کا سیلِ التفات کہاں

کتنی میٹھی زبان ہے تیری
غیر کے منھ میں ایسی بات کہاں

دل پہ قابو کا خواب رہنے دو
دسترس میں یہ کائنات کہاں

تیری خوشبو نے باندھ رکھّا ہے
اب مجھے خواہشِ نجات کہاں

جنگ جاری ہے مستقل مجھ میں
عقل سنتی ہے دل کی بات کہاں

نفسانفسی کی بھیڑ میں ماھی
کھو گئے سب تعلّقات کہاں

Waadi e ishq men ab gum ho jaun

وادیِ عشق میں اب گم ہو جاؤں
مجھ میں بس جاؤ کہ میں تم ہو جاؤں

تیرے چہرے سے پڑھا جائے مجھے
تیری آنکھوں کا تکلّم ہو جاؤں

میں بکھر جاؤں لبِ نازک پر
تیرے نغموں کا ترنّم ہو جاؤں

بجھتی آنکھوں میں چمکتا ہوا خواب
خشک ہونٹوں پہ تبسّم ہو جاؤں

ولولہ خیز محبت دل میں
روح میں تیری طلاطم ہو جاؤں

مسکرانے لگوں یوں ہی ماھی
اور یوں ہی کبھی گم صم ہو جاؤں

Mujh ko pathar samajh rhy thy log

مجھ کو پتھر سمجھ رہے تھے لوگ
اور پھر یوں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں رویا

وہ تو آنکھوں نے مخبری کردی ۔۔۔۔۔۔!
ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مانتا ۔۔۔ کہ میں رویا

دنیا والو ! بہت برے ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اس سے کیوں جا کہا ۔۔۔ کہ میں رویا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیمور حسن تیمور ۔۔۔۔۔۔۔

Aasmaan khench k dharti se mila sakta hai

آسماں کھینچ کے دھرتی سے ملا سکتا ہے
میری جانب وہ کبھی ہاتھ بڑھا سکتا ہے

شاہ زادی جو کبوتر ہے ترے ہاتھوں میں
دو قبیلوں کو تصادم سے بچا سکتا ہے

اپنے کاندھوں سے اتارا ہی نہیں زادِ سفر
پھر سے ہجرت کا مجھے حکم بھی آ سکتا ہے

چاہتا ہے جو محبت میں ترامیم نئی
میری آواز میں آواز ملا سکتا ہے

بند کمرے میں ہے تنہائی کہاں تک میری
کھڑکیاں کھول کے دیکھا بھی تو جا سکتا ہے

کوئی کتنا بھی ہو کم ظرف و گنہگار مگر
ایک پیاسے کو وہ پانی تو پلا سکتا ہے

اس لیے بعد میں اٹھا ہوں میں سب سے ساحر
وہ اشارے سے مجھے پاس بلا سکتا ہے !!

جہانزیب ساحر

Aati to hogi zehan men guzre dino ki soch

Aati go hogi zehan men guzre dino ki soch
Karta to hoga yaad wo mujhko kabhi kabhi

Ye jo deewany se do chaar nazar aaty han

ساغر صدیقی

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دور تک نہ کوئی ستارہ ہے نہ جگنو
مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں

مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

Wo dil ki baaten.zamane bhar ko na you sunata mujhay bata

محترم شاعر منیر نیازی صاحب
وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو نہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا

زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرارہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار کو گراتا ، مجھے بتاتا

زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا

مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہوں میں اپنے دل کا دیا بلاتا ، مجھے بتاتا

منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی کے ساتھ
میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا

منیر نیازی

Hum Saahib e Ana han Hamen Tang na Kijiye

ھم صاحبِ انا ھیں --------- ھمیں تنگ نہ کیجئے
مغرور , بے وفا ھیں ----- ھمیں تنگ نہ کیجئے

ھم کون ھیں؟ کہاں ھیں؟ --- اسے بھول جائیے
جیسے بھی ھیں, جہاں ھیں, ھمیں تنگ نہ کیجئے

بہتر ھے ھم سے --------- دور رہیں صاحبِ کمال
ھم صاحبِ خطا ھیں -------- ھمیں تنگ نہ کیجئے

ھم آپ کے ھیں کون؟ ----- ھمیں معاف کیجئے
ھم آپ سے جدا ھیں ------ ھمیں تنگ نہ کیجئے

ھم آپ سے خفا نہیں ھیں ----------- آپ جائیے !
خود ھی سے ھم خفا ھیں ھمیں تنگ نہ کیجئے

کچھ بھی نہیں بچا ھے ------- اب ھمارے پاس
کچھ لفظ ھم نوا ھیں ------ ھمیں تنگ نہ کیجئے

Aik tez teer tha k laga or nikal gaya

اِک تیز تیــــــر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے ، جنگل دہل گیاــــ؎

سوہا ہوا تھا شـہر کسی سانپ کی طرح
مــیں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیاــــ؎

خواہش کی گرمیاں تھیں عجب انکے جسم میں
خـــوباں کی صحبتوں مـــــیں مرا خون جل گیا

تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھـــر ایک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیاــــ؎

مدّت کے بعد آج اسے دیکھ کر "منیـــــرؔ"
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیاـــ؎!!

Itna To Mere Dil Par Ahsaan Kiya Kar

اتنا تو میرے حال پر احسان کیا کر
آنکھون سے میرا درد پہچان لیا کر

کچھ ساتھ دے سفر میں بہت تھک گیا ہوں میں
کچھ پل ہوں تیرے ساتھ میری مان لیا کر

افسانے محبت کے ادھورے نہ چھوڑ تو
جرمِ وفا کا مجھ سے ہر بیان لیا کر

مدت ہوئی اس آس پر ٹھرا ہوا ہوں میں
بھولے سے کبھی تو بھی میرا نام لیا کر

اپنی ذات سے وابستہ کر مجھے
ہو کر خفا مجھ سے نہ میری جان لیا کر

Meri Aankhon Main Utar Aao, Inhe Samundar Kr Do

**** Wassi ****

Meri Aankhon Main Utar Aao, Inhe Samundar Kr Do

Kuch Dair Hi Sahi Muhabat Ki Nzr Kr Do

Tot K Milo K Armaan Na Reh Jay Koi

Yun Muhabat K Her Lamhe Ko Amar Kr Do

Hum Pe Na Aay Koi Qayamat Sa Waqt

Bari Mushkil Hai Judai Isay Mukhtasir Kr Do

Jin K Nor Se Mil Jay Benai Humain Bhi

Apne Khawabon Ko Meri Aankhon Ki Nzr Kr Do

Dunia Ki Talab Nhi Mgr Ye Hasrat Hai Humari

Apni Bahon Main Lo, Dunia Se Bekhbr Kr Do.

Har lamhay ko is tarhaa main taay kar jaoon gi

***ADA E ISHQ***
Har lamhay ko is tarhaa main taay kar jaoon gi
Har ik pal mai tujhay apnay qareeb laoon gi

Mehsoos bhi na ker paiy ga tu mujhay humdum
Main teri sanss mai iss tarhaa bass jaoon gi

Guzarty hovey lamhoon ko ik yaad banatay huwey
Main teray her pal ko is tarhaa mehakaoon gi

Gar bhool na chahay bhi tu mujhay aaiy humnasheen
Jatay huwey teray chehray pay apna akass chor jaoon gi

Zindagi mein aisa lamha bhi hoga socha na tha
Paa ker uss ko main haadh se hi guzar jaoo gi

Kitni Azziyat Say Uss Ne Mujh Ko Bhulaaya Hoga...

***AZZIYAT***
Kitni Azziyat Say Uss Ne Mujh Ko Bhulaaya Hoga...
Meri Yadoon Ne Ussay Khoob Rulaaya Hoga..

Baat Be-Baat Aankh Uss Ki Jo Chhalkee Hogi.......
Uss Ne Chehre Ko Baazuon Main Chupaaya Hoga...

Socha Ho Ga Uss Ne Din Main Kaee Baar Mujhay.......
Naam Hatheli Par Bhi Likh Likh Kay Mitaaya Hoga...

Jahan Uss Nay Mera Zikkr Suna Hoga Kisi Say..
Uss Ki Aankhon Main Koi Aansoo Tou Aaya Hoga..

Ay Ishq Ye Tafreeq Munasib Nahi

اے عشق یہ تفریق مناسب تو نہیں ہے__!

جو حال اِدھر ہے، وہ اُدھر کیوں نہیں ہوتا

Wo Teri Tarhan Koi Thi

وہ تری طرح کوئی تھی

•--------------------------------------------------•
یونہی دوش پر سنبھالے
گھنی زلف کے دو شالے
وہی سانولی سی رنگت
وہی نین نیند والے

وہی من پسند قامت
وہی خوشنما سراپا
جو بدن میں نیم خوابی
تو لہو میں رتجگا سا

کبھی پیاس کا سمندر
کبھی بھی آس کا جزیرہ
وہی مہربان لہجہ
وہی میزباں وطیرہ

تجھے شاعری سے رغبت
اُسے شعر یاد میری
وہی اس کے بھی قرینے
جو ہیں خاص وصف تیرے

کسی اور ہی سفر میں
سرِ راہ مل گئی تھی
تجھے اور کیا بتاؤں
وہ تیری طرح کوئی تھی

کسی شہرِ بےاماں میں
میں وطن بدر اکیلا
کبھی موت کا سفر تھا
کبھی زندگی سے کھیلا

مرا جسم جل رہا تھا
وہ گھٹا کا سائباں تھی
میں رفاقتوں کا مارا
وہ مری مزاج داں تھی

مجھے دل سے اُس نے پوجا
اسے جاں سے میں نے چاہا
اِسی ہمرہی میں آخر
کہیں آ گیا دوراہا

یہاں گمرہی کے امکاں
اسے رنگ و بو کا لپکا
یہاں لغزشوں کے ساماں
اسے خواہشوں نے تھپکا

یہاں دام تھے ہزاروں
یہاں ہر طرف قفس تھے
کہیں زر زمیں کا دلدل
کہیں جال تھے ہوس کے

وہ فضا کی فاختہ تھی
وہ ہوا کی راج پتری
کسی گھاٹ کو نہ دیکھا
کسی جھیل پر نہ اتری

پھر اک ایسی شام آئی
کہ وہ شام آخری تھی
کوئی زلزلہ سا آیا
کوئی برق سی گری تھی

عجب آندھیاں چلی تھیں
کہ بکھر گئے دل و جاں
نہ کہیں گلِ وفا تھا
نہ چراغِ عہد و پیماں

وہ جہاز اتر گیا تھا
یہ جہاز اتر رہا ہے
تری آنکھ میں ہے آنسو
میرا دل بکھر رہا ہے

تو جہاں مجھے ملی ہے
وہ یہیں جدا ہوئی تھی
تجھے اور کیا بتاؤں
وہ تری طرح کوئی تھی

فانی🥀🥀

Hansi Hansi Rula Diya

غزل

ہنسی ہنسی رُلا دیا
عجب تماشا بنا دیا ہے

وہی ہوا نا محبتوں میں
ہمیں تم نے بھلا دیا ہے

خط بھی سارے جلا دیے ہیں
نام بھی مٹا دیا ہے

جو شخص میری کائنات تھا
اُسی نے راہ میں گنواہ دیا ہے

دل نے پھر کوئی تمنا کی ہے
دے تھپکی سلا دیا ہے

وہ جو چراغِ آخر شب تھا
اُسے کس نے بھجا یا ہے

Thukra do jo zillat se

ٹھکرا دو اگر دے کوئی ذلت سے سمندر

عزت سےجو مل جائے وہ قطرہ ہی بہت ہے