Saturday, 3 March 2018

Aasmaan khench k dharti se mila sakta hai

آسماں کھینچ کے دھرتی سے ملا سکتا ہے
میری جانب وہ کبھی ہاتھ بڑھا سکتا ہے

شاہ زادی جو کبوتر ہے ترے ہاتھوں میں
دو قبیلوں کو تصادم سے بچا سکتا ہے

اپنے کاندھوں سے اتارا ہی نہیں زادِ سفر
پھر سے ہجرت کا مجھے حکم بھی آ سکتا ہے

چاہتا ہے جو محبت میں ترامیم نئی
میری آواز میں آواز ملا سکتا ہے

بند کمرے میں ہے تنہائی کہاں تک میری
کھڑکیاں کھول کے دیکھا بھی تو جا سکتا ہے

کوئی کتنا بھی ہو کم ظرف و گنہگار مگر
ایک پیاسے کو وہ پانی تو پلا سکتا ہے

اس لیے بعد میں اٹھا ہوں میں سب سے ساحر
وہ اشارے سے مجھے پاس بلا سکتا ہے !!

جہانزیب ساحر