آسماں کھینچ کے دھرتی سے ملا سکتا ہے
میری جانب وہ کبھی ہاتھ بڑھا سکتا ہے
شاہ زادی جو کبوتر ہے ترے ہاتھوں میں
دو قبیلوں کو تصادم سے بچا سکتا ہے
اپنے کاندھوں سے اتارا ہی نہیں زادِ سفر
پھر سے ہجرت کا مجھے حکم بھی آ سکتا ہے
چاہتا ہے جو محبت میں ترامیم نئی
میری آواز میں آواز ملا سکتا ہے
بند کمرے میں ہے تنہائی کہاں تک میری
کھڑکیاں کھول کے دیکھا بھی تو جا سکتا ہے
کوئی کتنا بھی ہو کم ظرف و گنہگار مگر
ایک پیاسے کو وہ پانی تو پلا سکتا ہے
اس لیے بعد میں اٹھا ہوں میں سب سے ساحر
وہ اشارے سے مجھے پاس بلا سکتا ہے !!
جہانزیب ساحر