اِک تیز تیــــــر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے ، جنگل دہل گیاــــ؎
سوہا ہوا تھا شـہر کسی سانپ کی طرح
مــیں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیاــــ؎
خواہش کی گرمیاں تھیں عجب انکے جسم میں
خـــوباں کی صحبتوں مـــــیں مرا خون جل گیا
تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھـــر ایک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیاــــ؎
مدّت کے بعد آج اسے دیکھ کر "منیـــــرؔ"
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیاـــ؎!!